Sunday, April 22, 2018

صدام حسین کی زندگی کا ایک بہترین واقعہ



صدر صدام حسین ایک دفعہ رات کو عراق کی سرحدوں پر گشت کر رہے تھے تو بہت دور ایک بستی نظر آئی صدام نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس بستی میں چلتے ہیں لوگوں کی خبر گیری لیتے ہیں تو ساتھیوں نے منع کیا کہ رات کافی ہو چکی ہے صدام نے پھر اصرار کیا تو چلے گئے۔
بستی میں پہنچے تو ایک گھر میں دستک دی تو ایک بندہ آیا صدام کو دیکھتے ہی حیران ہو گیا صدام کے ہاتھ چومنے لگا خوشی کے مارے آنکھوں میں آنسو آ گ
یوں ایک گھر سے محلہ اور بات پورے علاقے میں پہنچ گئی پورا علاقہ جمع ہو گیا لوگ صدام حسین کا مصافحہ کرتے اور خوشی سے جھوم جاتے ۔۔
صدام نے کہا کہ آپ کو کوئی تکلیف تو لوگوں نے کہا کہ بہت خوش ہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں صدام نے کہا بس میرے لیے دعاؤں کی درخواست ہے جب تک میں جاگ رہا ہوں اس وقت تک چین سے سوتے رہو جب میں چلا گیا تو تم کھبی سو نہیں پاؤ گے !!
تاریخ گواہ ہے صدام زندہ تھا تو عراق کی بیٹی بھی محفوظ تھی شام کی بیٹی بھی محفوظ تھی یمن کی بیٹی بھی یوں سمجھیں کہ پورا عرب سکون کی نیند سوتا اور سکون کی نیند اٹھتا تھا ۔
اچانک عرب نے یورپ کا ساتھ دیا صدام کو تنہا کر دیا یوں امریکہ نے عراق پر چڑھائی کر دی اور صدام حسین تختہ دار پر لٹک گیا ، آخری الفاظ صدام کے کہ اگر میری انگلی بھی اگر شعیہ ہوتی تو اسے بھی کاٹ کے پھینک دیتا یوں صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی وہ دن اور آج کا دن سنی مسلمانوں کی نسل کشی شروع ہے پہلے عراق پر اور اب شام پر ظلم بربریت جاری ۔۔
تاریخ گواہ ہے جب تک صدام زندہ تھا اس وقت تک عرب میں کوئی دہشتگردی نہیں تھی کیونکہ عرب کا مجاہد صدام حسین تھا ۔
آج شام جل رہا ہے ، سعودیہ میں بغاوت ہے، یمن میں جنگ ، فلسطین میں ظلم ، جہاں دیکھو مسلمانوں پر ظلم ہے ۔۔
واحد ملک ترکی ہے جس نے کردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا ہے ۔۔
اللہ ترکی کو فتح نصیب فرمائے اور طبیب اردگان کو اللہ عمر دراز نصیب فرمائے ۔ آمین
یا اللہ ہم نے سنا تھا کہ قوم عاد پر عذاب آیا ، قوم سمود پر عذاب آیا ، قوم شعیب پر عذاب آیا ، قوم لوط پر عذاب آیا ، یا اللہ تو نے فرعون کو غرق کیا ، یا اللہ تو نے قارون کو غرق کیا ، یا اللہ تو نے نمرود کو غرق کیا ، یا اللہ تو آج ہم مظلوموں کی بھی فریاد سن لے ، میرے اللہ ، اسراہیل ، امریکہ ، آنڈیا کو تباہ برباد فرما ، یا اللہ تو فرشتوں کے ذریعے شام کے مسلمانوں کی مدد فرما۔ آمین

No comments:

Post a Comment