Sunday, April 22, 2018

اماں محبت کیا ہوتی ہے؟


ایک طوائف کی بیٹی جوان ہوئی تو ایک دن اپنی ماں سے پوچھنے لگی کہ ’’اماں محبت کیا ہوتی ہے؟؟؟‘‘ طوائف جل کر بولی’’ ہونہہ مفت عیاشی کے بہانے‘‘۔ہمارے ہاں زیادہ تر محبت کی شادیاں‘ نفر ت کی طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں
لیکن پھر بھی دھڑا دھڑ محبتیں اور ٹھکا ٹھک طلاقیں جاری ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محبت سے نفرت کا سفر ایک شادی کی مار ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں
تو ان کی محبت بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتی چلی جاتی ہے؟ ایک دوسرے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کا آغاز خوبصورت اور انجام بھیانک نکلتا ہے؟؟؟ آخرایک دوسرے کی خاطر مرنے کے دعوے کرنے والے ایک دوسرے کو مارنے پر کیوں تل جاتے ہیں؟
وجہ بہت آسان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلبل کا بچہ کھچڑی بھی کھاتا تھا‘ پانی بھی پیتا تھا‘ گانے بھی گاتا تھا‘ لیکن جب اسے اڑایا تو پھر واپس نہ آیا۔ اس لیے کہ محبت آزادی سے ہوتی ہے
‘ قید سے نہیں۔ ہمارے ہاں الٹ حساب ہے‘ جونہی کسی لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے‘ ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی قید شروع ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
لڑکیوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں’’شکیل اب تم نے روز مجھے رات آٹھ بجے چاند کی طرف دیکھ کر آئی لو یو کا میسج کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب ہم چونکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے
ہیں لہذا ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرنا ۔۔۔۔۔۔۔روز انہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے فون ضرور کرنا۔۔۔۔۔۔۔میں مسڈ کال دوں تو فوراً مجھے کال بیک کرنا۔۔۔۔۔۔۔فیس بک پر روز مجھے کوئی رومانٹک سا میسج ضرور بھیجنا۔۔۔۔۔۔۔
لڑکوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔جان! اب تم نے اپنے کسی Male کزن سے بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔کپڑے خریدتے وقت صرف میری مرضی کا کلر خریدنا۔۔۔
۔۔۔۔وعدہ کرو کہ بے شک تمہارے گھر میں آگ ہی کیوں نہ لگی ہو‘ تم میرے میسج کا جواب ضرور دو گی۔۔۔۔۔۔۔جان شاپنگ کے لیے زیادہ باہر نہ نکلاکرو‘ مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔‘‘
محبت کے ابتدائی دنوں میں یہ قید بھی بڑی خمار آلود لگتی ہے‘ لیکن جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں دونوں طرف کی فرمائشیں بڑھتے بڑھتے پہلے ڈیوٹی بنتی ہیں پھر ضد اور پھر انا کا روپ دھار لیتی ہیں
اور پھر نفرت میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ اسی دوران اگر لڑکے لڑکی کی شادی ہوجائے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں محبت آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے‘ لیکن ہم لوگ اسے مشکلات کا گڑھ بنا دیتے ہیں۔
غور کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں جن سے محبت ہوتی ہے ہم جگہ جگہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘ ہم اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی فیس دیتے ہیں‘ خود بھوکے بھی رہنا پڑے
تو اولاد کے لیے کھانا ضرور لے آتے ہیں‘ لائٹ چلی جائے تو آدھی رات کو اپنی نیند برباد کرکے‘ ہاتھ والا پنکھا پکڑ کر بچوں کو ہوا دینے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ہم بے شک جتنے مرضی ایماندار ہوں لیکن اپنے
بچے کی سفارش کرنی پڑے تو سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ ساری آسانیاں ہوتی ہیں جو ہم اپنی فیملی کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اُن سے محبت ہوتی ہے۔
اسی طر ح جب لڑکے لڑکی کی محبت شروع ہوتی ہے تو ابتداء آسانیوں سے ہی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور یہی آسانیاں محبت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں‘ لیکن آسانیاں جب مشکلات اور ڈیوٹی بننا شروع ہوتی ہیں
تو محبت ایک جنگلے کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے‘ محبت میں ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی لیکن ہمارے ہاں محبت ایک فل ٹائم ڈیوٹی بن جاتی ہے‘ ٹائم پہ میسج کا جواب نہ آنا‘ کسی کا فون اٹینڈ نہ کرنا‘ زیادہ دنوں تک ملاقات نہ ہونا ۔۔۔۔۔۔۔
ان میں سے کوئی بھی ایک بات ہو جائے تو محبت کرنے والے شکایتی جملوں کا تبادلہ کرتے کرتے زہریلے جملوں پر اُتر آتے ہیں اور یہیں سے واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔
جب کوئی کسی کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو محبت بھی اپنا دامن سکیڑنے لگتی ہے‘ میں نے کہا ناں۔۔۔۔۔۔محبت نام ہی آسانیاں پیدا کرنے کا ہے ‘ ہم اپنے جن دوستوں سے محبت کرتے ہیں
ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ بھی چونکہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے‘ اس لیے ان کے لیے جا بجا آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
مجھے محبت میں گرفتار ہونے والے بالکل بھی پسند نہیں‘ محبت گرفتاری نہیں رہائی ہے۔۔۔۔۔۔ٹینشن سے رہائی۔۔۔۔۔۔تنہائی سے رہائی۔۔۔۔۔۔مایوسی سے رہائی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں محبت ہوتے ہی ٹینشن ڈبل ہو جاتی ہے
اور دونوں پارٹیاں ذہنی مریض بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محبت شروع تو ہو جاتی ہے لیکن پوری طرح پروان نہیں چڑھ پاتی۔ لیکن جہاں محبت اصلی محبت کی شکل میں ہوتی ہے وہاں نہ صرف پروان چڑھتی ہے
بلکہ دن دوگنی اور’’رات‘‘ چوگنی ترقی بھی کرتی ہے۔
ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں محبت سے مراد صرف جنسی تعلق لیا جاتا ہے‘ یہ محبت کا ایک جزو تو ہوسکتا ہے لیکن پوری محبت اس کے گرد نہیں گھومتی‘ بالکل ایسے جیسے کسی اسلم کا ایک ہاتھ کاٹ کر الگ کر دیا جائے
تو اُس کٹے ہوئے ہاتھ کو کوئی بھی اسلم نہیں کہے گا‘ اسلم وہی کہلائے گا جو جڑے ہوئے اعضاء رکھتا ہوگا۔ ویسے بھی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ساری محبت کا انحصار چند لمحوں کی رفاقت کو قرار دے دیا جائے۔محبت زندان نہیں ہوتی‘ حوالات نہیں ہوتی‘ جیل نہیں ہوتی‘ بند کمرہ نہیں ہوتی‘ کال کوٹھڑی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔محبت تو تاحد نظر ایک کھلا میدان ہوتی ہے جہاں کوئی جنگلے‘ کوئی خاردار تاریں اور کوئی بلند دیواریں نہیں ہوتیں۔ آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئے‘ جہاں محبت ناکام ہوئی ہوگی وہاں وجوہات یہی مسائل بنے ہوں گے۔ ہر کوئی اپنی محبت جتلاتا ہے اور دوسرے کو بار بار یہ طعنے مارتا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی‘ ہو جاتی ہے۔ غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔محبت کی ایک چھوٹی سی کونپل دل میں از خود ضرور پھوٹتی ہے لیکن اسے تناور درخت بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ محبت کبھی کامیاب نہیں
ہو سکتی جہاں شکوے ‘شکایتیں اور طعنے شامل ہو جائیں۔ ایسے لوگ بدقسمت ہیں جو محبت کرنا نہیں جانتے لیکن محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسرے کو اتنا بددل کر دیتے ہیں کہ وہ محبت سے ہی انکاری ہو جاتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اس رستے پر نہ چلے۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نے صرف محبت کا نام سنا ہے‘ اس کے تقاضوں سے واقف نہیں۔
ہمیں کوئی پسند آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہو گئی ہے۔ پسند آنے اور محبت ہونے میں بڑا فرق ہے‘ کسی کو پسند کرنا محبت نہیں ہوتا لیکن محبت تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ضرور ہوتا ہے۔
میں نے بے شمار لوگوں کو انا کے خول میں لپٹے محبت کرتے دیکھا ہے‘ یہ محبت میں بھی اپنی برتری چاہتے ہیں‘ ان کے نزدیک محبت میں بھی سٹیٹس ہوتا ہے‘
حالانکہ محبت میں تو محمود و ایاز کی طرح ایک ہونا پڑتا ہے‘ رہ گئی بات انا کی ‘ تو یہ وقتی سکون تو دے دیتی ہے لیکن اِس کمبخت کے سائڈ ایفیکٹس بہت ہیں!!
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اُس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
میں نے اسے کیوں ڈانٹ دیا؟
کرن اپنا کچن کا کام ختم کر کے ابھی ابھی فارغ ہوئی تھی اور اب وہ سوچ ہی رہی تھی کہ جا کر باہر سے کپڑے اتار کر لے آئے کیونکہ وہ اب تک سوکھ چکے ہوں گے کہ اس کا بیٹا عادل بھاگتا ہوا آیا اور بولا:
ماما ۔۔۔ماما۔۔۔احمد نے پھر سے ایک بونگی ماری ہے۔ اس کا ماں بہت تھکی ہوئی تھی اور بالکل کسی قسم کے مزاق کے موڈ میں نہ تھی۔ کرن نے غصے سے عادل کو گھورا۔ عادل کو اپنی ماں کے غصے سے بہت ڈر لگتا تھا
وہ ایک دم سہم گیا اور واپس چلا گیا۔ کمرے میں گیا تو دیکھا کہ احمد صاحب اپنے مارکر پکڑ کر دیوار پر تصاویر اور نئے نئے نقشے بنانے میں مشغول تھے۔
عادل سے نہ رہا گیا اور وہ جانتا تھا کہ اگر ابھی جا کر کرن کو نہ بتایا تو پورے گھر کی دیواروں پر صرف نقشے ہی نقشے نظر آنے والے تھے۔
وہ بھاگا ہوا دوبارہ اپنی ماں کی طرف گیا، دیکھا تو کرن باہر سے کپڑے اتار کر ٹوکری میں ڈال رہی تھی۔ وہ آرام سے گیا اور جا کر ماں کو بتایا کہ ماما پلیز میں مزاق نہیں کر رہا احمد نے ساری دیوار پر رنگ ہی
رنگ لگا دیے ہیں۔ آپ خود جا کر دیکھ لیں۔ کرن طیش میں آگئی اورزور سے چیخی: احمد۔۔احمد!۔۔۔احمد نے جیسے ہی اپنی ماں کی آواز سنی تو ایک چھلانگ لگائی اور جا کر الماری میں چھپ گیا
۔ وہ اپنی ماں کی اس آواز سے بخوبی واقف تھا اور اسے معلوم تھا کہ ابھی ایک نہ تھمنے والا طوفان اس کی طرف بڑھ رہا ہے ۔کرن کمرے میں آئی
اور ادھر ادھر اس کو تلاش کرنے لگی۔ اتنے میں اس کی نظر الماری پر پڑی جو کھلی تھی اور وہ سمجھ گئی کہ اس کا تین سال کا بیٹا کدھر چھپ کر بیٹھا ہے۔
وہ الماری کے پاس گئی اور احمد کو اس کے کان سے پکڑ کر باہر نکال لیا۔ پھر شدید غصے میں اس بیچارے کو دو تین منٹ تک اول فول سناتی رہی۔ وہ بیچارہ بالکل چپ کر کے اپنی ماں کی ڈانٹ سنتا رہا اور عادل دروازے کے پیچھے
سے اس کو منہ چڑاتا رہا۔ جب کرن کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو وہ واپس باہر گئی اور جا کر باقی کپڑے سمیٹنے لگ گئی۔ اتنے میں اسے خیال آیا کہ جا کر ایک سپنج سے گھر کی دیوار بھی صاف کر دے جس پر احمد نے اللہ جانے
اب کونسے ملک کا نقشہ کھینچا تھا۔ وہ اندر گئی تو دیکھا کہ دیوار پر احمد نے لکھا ہوا تھا کہ آئی لو مائی ماما۔۔۔اور اس کے گرد دل کی شکل کا ہالہ بنایا ہوا تھا۔ اس کی ماں نے دیکھا تو اس کا دل پگھل گیا۔ وہ احمد کے کمرے میں گئ
ی تو دیکھا کہ وہ بیچارہ ڈانٹ کھا کر سو گیا تھا، اس نے پیار سے احمد کو کس کیا اور کچھ پیسے اٹھا کر پرس میں رکھے اور بازار کا رخ کیا
۔ بازار جا کر اس نے ایک بہت خوبصورت سا فریم خریدا اور گھر آگئی۔ اس نے یہ خالی فریم احمد کی ڈرائنگ کے گرد لٹکا دیا اور وہ ایک بہت پیاری سی تصویر دکھنے لگی
احمد سو کر اٹھا تو دیکھا کہ ماما بیڈ پر بیٹھی تھیں۔ وہ پریشان ہو گیا کہ شاید ابھی اور ڈانٹ پڑنے والی ہے۔ کرن نے اسے پھر سے کس کیا اور بولی، میری جان ادھر آؤ، اس کو عادل کے کمرے میں اسی دیوار کے پاس لے گئ
ی اور فریم میں اسکی ڈرائنگ دکھائی۔ احمد نے دیکھا تو بہت خوش ہوا ۔ ہم اپنی تھکان میں اکثر بچوں کوڈانٹ دیتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا خاص خیال کرنا چاہیے کہ بچوں کی حوصلہ افزائی ان کو بہت خود اعتمادی دیتی ہے اور ان کی کامیابی کا راز ہوتی ہے۔

No comments:

Post a Comment