Wednesday, May 23, 2018

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا میرے ساتھ جنت میں کون ہو گا تو جواب کیا ملا ۔۔ ایمان افروز تحریر آپ بھی پڑھیں

OPEN HERE
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا میرے ساتھ جنت میں کون ہو گا ؟ارشاد ہوا “فلاں قصاب تمہارے ساتھ ہو گا”حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے وہاں دیکھا تو ایک قصاب اپنی دوکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا ، اپنا کاروبار ختم کر کے اس نے ایک گوشت کا ٹکڑاایک کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا


،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصاب کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔گھر پہنچ کر قصاب نے گوشت پکایا پھر روٹی پکا کر اسکے ٹکڑے شوربے میں نرم کیے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا ،جہاں ایک انتہائی کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ، قصاب نے بمشکل تمام اسے سہارا دیکر اٹھایا ، ایک ایک لقمہ اسکے منہ میں دیتا رہا ، جب اس نے کھانا تمام کیا تو اس نے بڑھیا کا منہ صاف کر دیا کھانا کھا کر بڈھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا ، جسے سن کر قصاب مسکرا دیا ، اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آ گیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام جو یہ سب دیکھ رہے تھے ، آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرا دیا ؟قصاب بولا اے اجنبی ! یہ عورت میری ماں ھے ، گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں تو خوش ہو کر روز مجھے یہ دعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھے اور میں مسکرا دیتا ہوں کہ میں کہاں اور موسیٰ کلیم اللہ کہاں ؟

انشاء اللہ رمضان کے مہینے میں جو مانگو گے ملے گا؟ اگر نہیں یکیں تو یہ طریقہ آزمائیں۔۔


بس یہ آیت پڑھیں ۔انشا ئ اللہ آپ کی ہر خواہش پوری ہوگی۔ صرف 15دفعہ آیت پڑھیں ہر کوئی آپ کی بات مانے گا جیسا چاہو گے انشا ویساہی ہوگا۔ آج ہم آپ کو ایک ایسا وظیفہ بتائیں گے جو بہت ہی آسان ہیں جس کے کرنے سے ہر کوئی آپ کی بات مانے گا اور مرضی کے مطابق ہو گا ۔وظیفہ کے بارے میں بتانے سے پہلے ایک بات یاد رہے تمام قرآنی وظائف کا شیطانی جادو ساے موازنہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ قر آنی وظائف نورے رحمان اور جادوثفتے شیطان ہےرحمان اور شیطان کی جنگ میں فتح حق یانی اللہ کے قدرتے قانون کی ہوتی ہے ۔شیطان کا جاودوجتنا بھی تیز ہو آخر قرآن پاک کی برکات سے زائیل ہو جاتا ہے قرآنی آیات کا استعمال اچھائی کے لیے کرنا چاہیے بڑائی کے لیے نہیں جو لوگ قرآنی آیت سے جلد اور لازمی توقعہ رکھتے ہیں
۔وہ یہ بات بھول جاتے ہیںتمام قرآنی آیت میں انسان کی حاجت اور مقصد میں پورا ہونے میں اس کے عمال اور مقصد کا جائز ہونا لازمی شر ط ہے
۔ مثال کے طور پر کوئی بھی شخص اپنے دوست آفیسریا کسی سے بھی اپنی بات منوانا چاہتا ہے ۔تو وہ بات کس حد تک جائز ہے۔اور اس کا مقصد کتنا نیک ہے۔اگر بات جائز ہے مقصد نیک ہے ۔اور بات منوانے والا شخص نیک ہے ۔تو اللہ تعالی ہر حالت میں اس کی بات کو اس شخص سے منوائے گا۔دوستو اب آپ سمجھ گئے ہو گے اس وظیفے دارومدارانسان کے کام اور اس کے نیک مقصد پر منصر کرتا ہے ۔اس وظیفے کو کوئی بھی شخص نیک حاجت اور اچھے مقصد کے لیے کرے گا تو کامیابی لازم حاصل ہو گی ۔اگر کامیابی نہ ہو تو مایوس ہو کر اس وظیفے کو نہ چھوڑیں۔ایک سے دو مرتبہ کوشش کریںاگر اس کے باوجود بھی حاجت پوری نہ ہو تو اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کریں کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ اس وظیفے کی اجازت ہر خاص عام کو ہے لیکن نیک مقصد کے لیے اوروظیفہ یہ ہے ۔ سب سے پہلے نماز کی پابندی کریں اور پھر یہ وظیفہ کسی کے نقصان کی نیت سے نہیں کرناوظیفہ کرنے سے پہلے باوضو ہو جائیں۔ سب سے پہلے درود شریف پڑھیں پھر پندرہ دفعہ یہ آیت

Friday, May 11, 2018

جو تمھارے حصے کا ہے وہ تمھیں ضرور ملے گا


مشہور مؤرخ ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ میں ایک سال حج کے زمانے میں مکہ مکرمہ میں تھا تو میں نے خراسان ( اس دور میں خراسان‘ ایران اور افغانستان سمیت ارد گرد کے کئی ممالک کو کہا جاتا تھا) سے آئے ہوئے ایک شخص کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا ‘ وہ کہہ رہا تھا :’’ اے مکہ کے رہنے والو! اے حج کیلئے دور دراز سے آنے والو! میری ایک تھیلی گم ہو گئی ہے جس میں ایک ہزار دینار تھے ۔ جو شخص بھی مجھے وہ واپس کر دے تو اللہ تعالیٰ اُسے بہترین جزادے اور زادے اور جہنم سے آزادی عطا کرے‘‘( دینار سونے کا سکہ ہوتا تھا اور آج کل کے حساب سے اس کا وزن 4, 347گرام بنتا ہے ۔اس طرح اندازہ کر لیں کہ ایک ہزار دینار ، اچھا خاصا سونے کا خزانہ تھا)یہ اعلان سنتے ہی مکہ مکرمہ کے ایک بوڑھے صاحب اٹھے اور انہوں نے اُس اعلان کرنے والے کو مخاطب کر کے کہا :’’ اے خراسانی بھائی ! ہمارے شہر کے حالات آج کل بہت ہی دگرگوں ہیں ۔ ہر طرف قحط سالی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔ مزدوری کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ فقر و غربت کا دور دورہ ہے ۔ آپ کیلئے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اُس شخص کیلئے جو آپ کا مال لوٹا دے‘ کچھ انعام کا اعلان کردو ۔ ممکن ہے کہ وہ مال کسی فقیر اور محتاج کے ہاتھ لگا ہو تو جب وہ انعام کا اعلان سنے گا تو آپ کا مال لا کر دے دے گا ۔ تاکہ اُسے بھی حلال طریقے سے کچھ دینار مل جائیں‘‘۔خراسانی شخص نے پوچھا:’’ آپ کے خیال میں ایسے شخص کا انعام کتنا ہونا چاہیے؟‘‘۔مکہ مکرمہ کے رہائشی اُن بزرگ عمر شخص نے کہا :’’ ایک ہزار دینار میں سے کم از کم سو دینار تو ہونے ہی چاہئیں ‘‘۔لیکن خراسانی شخص اس پر راضی نہیں ہوا اور اُس نے کہا :’’ میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں ۔ آج مجھے مال نہ ملا تو کوئی بات نہیں ‘روزِ قیامت تو مل ہی جائے گا ‘‘۔ابن جریرطبری کہتے ہیں کہ میں یہ سارا مکالمہ سن رہا تھا اور میں سمجھ گیا کہ یہ مال کسی اور کو نہیں اسی بابا جی کو ملا ہے لیکن یہ بغیر کسی حلال انعام کے اُسے واپس نہیں کرنا چاہتا ہے ۔ شاید یہ بہت محتاج اور فقیر ہے ۔ میں نے اپنے شک کو یقین میں بدلنے کیلئے اور اصل صورت حال سمجھنے کیلئے اُس کا پیچھا کیا کہ یہ کہاں جاتا ہے؟وہ بابا جی اپنی جگہ سے اٹھے اور مکہ مکرمہ ایک پرانے محلہ کے کچے گھر میں داخل ہوئے ۔ ابن جریر طبری باہر کان لگا کر سن رہے تھے ۔ اندر گھر سے آواز آئی کہ بابا جی اپنی اہلیہ کو کہہ رہے تھے:’’ اے لبابہ ! دیناروں کا مالک مل چکا ہے اور اب ہمیں دینار واپس ہی کرنے پڑیں گے ۔ میں نے اُسے کچھ انعام دینے کا ہی کہا لیکن وہ تو اس سے بھی انکاری ہے‘‘۔کئی دنوں سے فاقے کی ستائی ہوئی اہلیہ نے جواب دیا :’’ میں پچاس سال سے آپ کے ساتھ غربت بھری زندگی بسر کر رہی ہوں لیکن کبھی اپنی زبان پر حرفِ شکایت نہیں لائی ۔ لیکن اب تو کئی دنوں سے فاقہ ہے ۔ پھر ہم دونوں کی ہی بات نہیں ۔ گھر میں ہماری چار بیٹیاں ، آپ کی دو بہنیں اور آپ کی والدہ بھی ہیں ۔ انہی کا کچھ خیال کر لو ۔ یہ مال جیسا بھی ہے آج خرچ کر لو ۔ کل کو ممکن ہے کہ اللہ تمہیں مالدار کر دے تو یہ قرض چکا دینا ‘‘۔بابا جی نے اپنی لرزتی ہوئی آواز میں کہا:’’ کیا میں ۸۶ برس کی عمر میں آکر اب حرام کھانا شروع کردوں‘ جبکہ میں نے پوری زندگی صبر وشکر میں گزاردی ہے ۔ اب تو یوں سمجھو کہ میں قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھا ہوں ۔ مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا۔‘‘ اس پر بیوی بھی خاموش ہو گئیابن جریر طبری کہتے ہیں میں یہ سب باتیں سن کر بہت حیران ہوا اور واپس حرم شریف آگیا ۔ اگلے دن جب سورج کچھ بلند ہوا تو وہ ہی کل والا خراسانی شخص اپنے گم شدہ مال کا اعلان کرنے لگا ۔ پھر وہ ہی بابا جی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا :’’اے خراسانی بھائی! میں نے کل بھی آپ کو ایک مفید مشورہ دیا تھا اگر آپ ہزار دینار میں سے سو دینار نہیں دے سکتے تو دس دینار ہی دے دو تاکہ اگر کسی غریب‘ فقیر ‘ محتاج کو آپ کا مال ملا ہے تو اُس کا بھی کچھ بھلا ہو جائے ‘‘۔ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ اس طرح دوسرا دن بھی بیت گیا اور خراسانی شخص کو اُس کا مال نہیں مل سکا ۔ جب تیسرے دن کی صبح ہوئی تو پھر وہ آکر اپنے گم شدہ مال کا اعلان کرنے لگا ۔ اب پھر وہ ہی بابا جی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا :’’خراسانی بھائی! میں نے پرسوں آپ کو سو دینار انعام کا اعلان کرنے کا مشورہ دیا لیکن آپ نہیں مانے ۔ کل دس دینار کا مشورہ دیا ‘ اُس پر بھی آپ نے انکار کر دیا ۔ چلو! ایک دینار انعام کا ہی اعلان کر دو ، ممکن ہے کہ جس غریب کو مال ملا ہے ‘ اُس کے گھر میں کئی دن سے فاقہ ہو تو وہ ایک دینار سے اپنے اہل و عیال کیلئے کچھ کھانے کا ہی انتظام کر لے گا ‘‘۔خراسانی شخص نے پھر بڑی ہی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک دینار بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہوں ۔ اپنا مال لوں گا تو پورا لوں گا ورنہ روزِ قیامت ہی فیصلہ ہو گا ۔جب بابا جی نے یہ سنا تو اُن کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور اُس خراسانی شخص کا دامن اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا:’’میرے ساتھ آئو کہ میں تمہارا مال واپس کردوں ۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ مال مجھے ملا ہے‘ میں ایک پل بھی سکون کی نیند نہیں سو سکا ہوں‘‘۔ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ میں بھی چپکے سے ان کے پیچھے پیچھے چل دیا ۔ بابا جی اپنے گھر میں داخل ہوئے ۔ دینار لیے اور باہر نکل کر وہ سارے دینار اُس خراسانی شخص کو دیتے ہوئے کہا:’’اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے اور اپنے فضل سے ہمیں رزق عطا فرمائے‘‘۔مجھے اُن کے پیچھے گھر سے رونے اور سسکیوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی کہ سب کئی دن فاقے سے تھے ۔ اُس خراسانی شخص نے تسلی سے اپنے دینار گنے اور روانہ ہو گیا ۔ ابھی وہ تھوڑا ہی آگے گیا تھا کہ اچانک مڑا اور اُن بابا جی کی کنیت سے اُنہیں مخاطب کر کے کہنے لگا:’’اے ابو غیاث! میرے والد کا انتقال ہوا تو انہوں نے اپنی میراث میں تین ہزار دینار چھوڑے تھے اور وصیت کی تھی کہ شرعی طریقے پر اس کا تیسرا حصہ یعنی ہزار دینار فقراء و مساکین پر صدقہ کر دئیے جائیں اور میں مکہ مکرمہ سے یہ مال اسی نیت سے لایا تھا کہ کسی فقیر اور محتاج کو دے کر اپنے لیے اور اپنے مرحوم والد کیلئے دعا کروائوں گا ۔ مجھے اس سفر میں آپ سے زیادہ سفید پوش کوئی نظر نہیں آیا ‘ اس لیے یہ مال رکھ لو اور اپنی ضروریات میں خرچ کرو‘‘۔یہ سن کر ابو غیاث کی آنکھوں سے تشکر بھرے آنسو رواںہو گئے اور انہوں نے خراسانی شخص اور اس کے والد ِ مرحوم کو خوب دعائیں دیں ۔ پھر جب وہ خراسانی شخص وہاں سے جانے لگا میں بھی واپس ہونے کیلئے مڑا تو پیچھے انہی بابا جی ’’ابو غیاث‘‘ کی آواز سنائی دی :’’ بیٹا ! رک جائو ۔ میں پہلے دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تم میرا پیچھا کر رہے ہو اور پورے معاملے سے باخبر ہو ۔ میںنے اپنے شیخ احمد بن یونس یربوعیؒ سے اور انہوں نے امام مالکؒ سے اور امام مالکؒ نے حضرت نافع ؒ سے سنا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بتاتے تھے کہ جنابِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی ہدیہ (تحفہ) بغیر مانگے اور بغیر نفس کے انتظار کے دے دے تو اُسے قبول کر لینا اور رد نہ کرنا‘‘۔پھر انہوں نے گھر کے نو افراد کیلئے سو ‘سو دینار الگ کیے اور پورا دسواں حصہ یعنی سو دینار مجھے عنایت کیے اور مجھے ساتھ ہی کہا کہ یہ حلال مال ہے ‘ اسے احتیاط سے خرچ کرنا ۔ابن جریر طبری کہتے ہیں میں وہ ہی سو دینار دو سال تک خرچ کرتا رہا اور خوب علم حاصل کیا ۔اللہ کریم ہم سب کو اپنے لطف و احسان سے اس کا یقین عطا فرما دے کہ جو رزق ہمارے نصیب میں لکھا ہے‘ وہ ہمیں ضرور ملے گا چاہے وہ کہیں بھی ہو اور جو رزق ہمارے حصہ کا نہیں ہے‘ وہ ہمارے کام نہیں آئے گا ‘ خواہ ہمارے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو۔ بس رزقِ حلال کے اہتمام اور حرام روزی سے بچنے کی یہی کنجی ہے ۔ باقی رزقِ حلال کیلئے محنت ‘ مسنون دعائوں اور مقبول وظائف بھی بندے کو اللہ تعالیٰ سے جوڑنے کے ذرائع اور بہانے ہیں..!!

Thursday, April 26, 2018

میرا رشتہ ہو رہا یا سودا ؟



ﯾﮏ خاص ۔پوسٹ۔۔!"

معذرت کے ساتھ ایک کڑواسچ
اس تحریر نے سچ میں رولا دیا ۔۔😢😢
پلیز ایک بار ضرور پڑھنا۔۔
*******************
چائے رکھ کر وہ شرماتے ہوئے واپس مڑی تو ۔۔
اسے دیکھنے آنے والی آنٹی نے کہا ”بیٹی ہمارے پاس نہیں بیٹھو گی؟“
اسے جانے کیوں لگا تھا کہ آنٹی کے لہجے میں طنز ہے۔۔
وہ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی۔۔
اس کے مائینڈ میں وہ سب لوگ آنے لگے جو پہلے بھی اسے دیکھ کر جاتے تھے۔۔۔
طرح طرح کے سوال کرتے تھے۔۔۔بعد میں وہ ماما پاپا کی باتوں سے اندازہ لگاتی کہ اسے عمر اور کبھی ہائٹ کی وجہ سے ریجیکٹ کیا جاتا ہے۔۔۔
آج بھی وہ سوالات سے ڈری بیٹھی تھی کہ آنٹی جی کی آواز سنی
”بہنا کیا بتائیں ہم لڑکے والے جو ہوئے۔۔لڑکیاں آج کل کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہیں ۔۔۔بہت رشتے آتے ہیں۔۔مگر کوئی دل کو نہیں لگی۔۔بیٹا ہمارا تو لاکھوں میں ایک ہے“
وہ لہجے میں غرور کو دیکھ سکتی تھی۔۔
”بیٹی تم نے میٹرک کب کیا ہے؟“ تم کیا کیا بنا لیتی ہو ؟
میرے بیٹے کو خوش رکھ سکو گی؟ بڑا نخریلو ہے ...
۔۔۔جواب دے دے کر اس کا دل رونے لگا تھا۔۔۔
”یا اللہ میں بیٹی ہوں یا جانور ؟ میرا رشتہ ہو رہا ہے یا سودا ؟ 
کل بھی میں بِک رہی تھی تب پیسوں میں ۔۔
آج بھی سودا کیا جاتا ہے۔۔ نکاح کے نام پر“
”بیٹی تم میرے بیٹے کے لیے۔۔۔۔۔“
”بس ماں بس “ وہ چیخ کر روی ماں کیا تم مجھے اس گھر میں تھوڈی جگہ نہیں دے سکتی ؟میں جاب کر کے کما لوں گی “ یہ رشے کے نام پر روز مجھے بیوپاریوں کے سامنے پیش کر کے رسوا نہ کرو۔۔۔
مجھے جس دین نے عزت دی آج وہ دین بس نمازوں تک مانا جا رہا ہے ۔۔ماں اگر وہ دین دلوں میں ہوتا تو اس طرح نہ ہوتا۔۔“
ماں رو پڑی مگر کچھ کہا نہیں۔۔
آنٹی نے اسے بد تمیز کہا اور ۔۔۔ کہا کہ” ہم لڑکے والے ہیں۔۔ہزاروں لڑکیاں مل جائیں گی“
😢😢😢😢
۔۔۔۔۔قسم سے یہ کہانی محض کہانی نہیں آج کل ایسا ہو رہا ہے۔۔میں نے تصویر دکھائی ہے۔۔
کہنا یہ ہے کہ۔۔ہم سٹوڈنٹس اپنے والدین کو سمجھا کر بیجھیں کہ سوال جواب کم سے کم لڑکیوں سے ایسے نہ کیے جائیں۔۔ان کے بارے کچھ پوچھنا ہو تو تنہائی میں ان کے والدین سے پوچھیں۔۔
وہ بیٹی ہے جیسی بھی ہو جب کوئی انکار کر کے جاتا ہے۔۔۔۔
اس کے دل پر کیا بیتتی ہے۔۔یہ وہ جانتی ہے۔۔
😢😢
قابل تعریف ہیں وہ لڑکیاں جو اپنے والدین کا مان ٹوٹنے نہیں دیتیں.
اللّٰہ پاک تمام بہن بیٹیوں کی حفاظت فرمائے آمین
اچھی بات کو دوسروں تک شئیر کرنا صدقہ جاریہ ہے...
*****************







🌻جزاك اللہ الخیر***ک***

Wednesday, April 25, 2018

فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اسراء کی رات ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی. میں نے کہا اے جبریل ! یہ کیسی اچھی خوشبو ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد کی ہے‘ اس کی شان پوچھی گئی توعرض کیا‘فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتے ہوئے اس مومنہ خاتون کے ہاتھ سے اتفاقاً کنگھی گر پڑی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا.
فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے. اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ نہیں، میرا اور تیرے باپ کاپروردگار اللہ ہے.
فرعون کی بیٹی نے کہا کہ میں اس کی خبر اپنے باپ کو دے دوں گی تو اس نے کہی کوئی حرج نہیں.پس اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی. فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو. کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے. فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے. اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک کپڑے میں جمع کرکے دفن کردینا . فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے.بعد ازیں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ


کی طرح تپتی ہوئی آگ میں ڈال دو. جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی( تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی). اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں بلکہ (آگ میں) ڈال دیں کیونکہ دنیا کا عذاب ،آخرت کےعذاب سے بہت ہلکا ہے، تب (ماں نے بچے کوآگ میں) ڈال دی .ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چارچھوٹے بچوں نے بات کی وہ یہ ہیں. (1)عیسی بن مریم علیہ السلام (2)صاحب جریج (3)یوسف کی گواہی دینے والا . (44)فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا بیٹا
.

عالمہ سے شادی اور پھر کیا ہوا؟

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﻮ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻤﮧ ﮬﻮﮞ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ – ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ہوﺍ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﺍﭼﮭﺎ ہوﺍ ﮐﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽﻟﯿﮑﻦ کچھ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﮕﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ہم ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﻋﮩﺪ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻮﯼ ﭘﺮ ﺳﺴﺮ ﻭ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻭﺍﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﻟﻮ – ﻭﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﮍﺍ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ہوا ﮐﮧ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﻨﮯ ﮔﺎ؟
ﺍﺱ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻔﺘﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ مدد ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﻔﺘﯽ ﺻﺎﺣﺐ کچھ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﻨﺲ ﮔﯿﺎ ﮬﻮﮞ – ﻣﻔﺘﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭨﮭﯿﮏ ﮐﺮﺗﯽ ہے – ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺱ مسئلہ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺁﯾﺎ ہوﮞ ﻓﺘﻮﯼ ﻟﯿﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ – ﻣﻔﺘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮬﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﺳﮑﻮ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ . ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺟﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﮐﮧ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﺭﻭ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮ ﺭہا ہوﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﺭﮨﯿﮕﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﯾﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﺁﭖ ﻭﮨﺎﮞ ﺭہیں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺩﮬﺮ ﺭہے گی – ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺳﭩﻤﭩﺎ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﭼﻠﻮ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺮﻭ ﺩﻭﺳﺮﯼﺷﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﺮ ہی ﺭہوﻧﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﻭﻧﮕﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﻣﺴﻠﻢ ﮬﮯ.